نغمہ طیور تھا
نور کا ظہور تھا
باد صبا تھی چل رہی
جوانی تھی مچل رہی
پتوں کا عجب شور تھا
محو رقص مور تھا
موتیوں کی کتاب تھی
موتی کیا شراب تھی
وہ اک نگاہ جو پڑی
وہ کون تھی وہاں کھڑی
وہ حور باجمال تھی
نشہ تھا ایک جال تھی
وہ حسن کیا تھا تیر تھا
بدن بھی غزل میر تھا
میں پاس اسکے آ گیا
خمار مجھ پہ چھا گیا
ہوش میرے کھو گئے
حواس میرے سو گئے
ہاتھ اسکا میں نے تھام کر
کہا کہ اے نور نظر
تو کون ہے مجھکو بتا
لب تو ہلا کچھ تو سنا
کہنے لگی وہ گلبدن
اےجان جاں اے جان من
میں پیار ہوں قرار ہوں
گویا کہ روح بہار ہوں
آ مجھکو آ کے تھام لے
اور یہ لے ایک جام لے
میں نے بغیر سوچ کے
عقل کو اپنی نوچ کے
اسی کو ہمسفر لیا
اسی کو زاد راہ لیا
میں اس میں ہی گم ہو گیا
اسی میں قلب کھو گیا
پھر ایک دن کیا ہوا
مست تھا سویا ہوا
چپکے سے مجھ کو چھوڑ کر
ناطہ مجھ سے توڑ کر
چلی گئی چلی گئی
وہ درد مجھ کو دے گئی
کاغذ تھا اک وہاں پڑا
جس پہ تھا لکھا ہوا
دنیا میرا نام ہے
یہی میرا کام ہے