وہ ہر روز میرا صبر آزمانے آتا ہے
کنارے پے بیٹھ کر سمندر کی آگ بجھانے آتا ہے
دکھ درد کا ساتھی جیسے سمجھا تھا
وہی میرے خوابوں کو جلانے آتا ہے
روک سکتی ہو - تو جاو روک لو لکی
وہ پتھر سا دل مجھے بھی پتھر بنانے آتا پے
کب پگھلی گئی ُاس کے لہجوں کی برف
جو ہر روز نیے نیے بہانے سنانے آتا ہے
راہ میں چھوڑ دینا - وہ اسے دھوکا نہیں سمجھتا
میری عمر بھر کی وفا کو وہ پل میں مٹانے آتا ہے
کیا لکھا ہیں خدا نے نصبیا لکی
وہ اپنی امانت کو غیر کا گھر دیکھانے آتا ہے
کاش ! سمبھلنا آتا ہمیں بھی ُاس کی طرح
جو محبت کو فقط کہانی بتانے آتا ہے