وہ یوں ملے ہیں مجھ کو ہزاروں کے درمیاں
چمکا ہو چاند جیسے ستاروں کے درمیاں
اِس دل کی کیفیت کا بھی عالم نہ پُوچھۓ
جیسے سُلگ رہا ہو شراروں کے درمیاں
اہل چمن کو دُکھ بھرے کانٹوں کی کیا خبر
رہتے ہیں کس گٹھن سے بہاروں کے درمیاں
وہ بام پر ہیں اور سر طور اِن کا عکس
پھترا گئی ہے آنکھ نظاروں کے درمیاں
آنکھ میں آنسوؤں کی تڑپ دیکھو مسعود
جیسے دریا اُمڈ پڑا ہے کناروں کے درمیاں