وہم تھا گماں تھا کوئی
لگتا ہے مہرباں تھا کوئی
ترستے رہے گلوں کو لیکن
یوں ہمارا گلستاں تھا کوئی
مدت ہوئی ، بھلا بیٹھے جو
درمیاں ہمارے پیماں تھا کوئی
رقیبوں کو خبر دو میرے
گھر آیا مہماں تھا کوئی
جاتے تو آخر جاتے کہاں
زمیں اپنی نہ آسماں تھا کوئی
سوئے مقتل ضرور جاتے لیکن
رستے میں پڑتا آستان تھا کوئی
سفر زندگی کٹتا کیسے طاہر
پاس اپنے ساماں تھا کوئی