اس بار اس نے کسی اور کے نام کا پھول زلفوں میں سجایا ہو گا
کر کہ ناز اپنی قسمت پے کسی کے دل کو آج چرایا ہو گا
وہ جو کہتا تھا کہ مر جائیں گے ہو کر اک پل بھی جدا تم سے
جینے پرنے کا عہد کسی اور کے ساتھ آج نبھایا ہو گا
کر کہ ریزہ ریزہ کسی نادان کے دل کو
آج کسی اور کے دل میں خواب جگایا ہو گا
فقط بکھرا کر اپنے سیاہ گیسوؤں کو سکی کے شانے پے
گیت پھر کوئی نیا آج اس نے گنگنایا ہو گا
میری امیدوں کو رسوا بھری محفل میں
کسیے آج اس نے دوسروں کی بانہوں میں ویلنٹائن منایا ہو گا