ُاسی کے خیال میں
میں نے ُاسی کو نا دیکھا
فلک پے دیکھتا رہا چاند رات بھر
جو ُاترا گیلی میں چاند ُاسی کو نا دیکھا
پھولوں کی پتوں سے ۔ کر رہا تھا حال ارسال وہ
جواب حال میں پھول آیا ۔ تو ُاس نے ُاسی کو نا دیکھا
وہ کیسا تھا مریض ۔ جو چپ چاپ بیٹھا رہا طبعیب کے انتظار میں
طبیعب آیا بھی تو ُاس نے ۔ اپنے اک ُاسی مریض کو نا دیکھا
دل کے آنئے میں عکس نظر آ رہا تھا دھندلا سا
مجھے دیکھنے والے نے ۔ اپنے ہی عکس کو آنئے میں نا دیکھا
خبر تک نہ ہوئی دریاوں سے دریا کب مل گئے لکی
جو چلاتا رہا کشتی ُان پے مگر میرے آنسؤں کو نا دیکھا