ٹوٹ کے برسی برسات تو تمہاری کمی محسوس ہوئی
مچلے آج پھر جذ بات تو تمہاری کمی محسوس ہوئی
رم جھم رم جھم گرتی بارش کی بوندوں کے سبب
جب سرد ہوئی بہت رات تو تمہاری کمی محسوس ہوئی
کبھی دل کو کبھی جاں کو کبھی میری روح پریشاں کو
پہنچائے زمانے نے صدمات تو تمہاری کمی محسوس ہوئی
لڑکھڑاتے کو سنبھالنا اور کرنا مجھ پہ زلفوں کا سایہ
یاد آئیں تیری وہ نوازشات تو تمہاری کمی محسوس ہوئی
مدت ہوئی ہے اک لمحہ بھی سکوں سے سوئے ہوئے
بگڑ گئے اس قدر حالات تو تمہاری کمی محسوس ہوئی
میرے گھر کی منڈیر پہ بیتھے ہوئے دو پنچھیوں نے امتیاز
کیے محبت کے مذاکرات تو تمہاری کمی محسوس ہوئی