ایک پل چین سے سویا بھی نہیں جا سکتا
کیا کریں کہ ٹوٹ کے رویا بھی جا سکتا
خواب اشکوں کی طرح آنکھ سے جھڑتے بھی نہیں
بوجھ ایسا ہے کہ ڈھویا بھی نہیں جا سکتا
عشق وہ داغ ہے کہ لگتا نہیں ہر دامن پر
اور لگ جائے تو دھویا بھی نہیں جا سکتا
کیا قیامت ہے کہ ساحل بھی مقدر میں نہیں
اور سفینے کو ڈبویا بھی نہیں جا سکتا
آنکھ تر تھی تو سمندر میرے آغوش میں تھا
اب کے دامن کو بھگویا بھی نہیں جا سکتا