ٹوٹا ہوا دل کیوں نہ گبھرائے
شکستہ دیواروں کے مکان گر جاتے ہیں
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ
اکثر جھونکوں سے بجھ جاتے ہیں
دیکھ لو ٹھہر جائے گا آنکھوں میں منظر
ورنہ خاک میں چہرے خاک ہو جاتے ہیں
گل و رخسار کی باتیں کرتے ہیں شاعر
عاشق تو کانٹوں میں الجھ جاتے ہیں
جذب ہوتے ہیں جب خاک میں آنسو
پھولوں کے چہرے غمناک ہو جاتے ہیں
ضبط کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے
بادل امڈ آئیں تو برس جاتے ہیں
شہر بے پرواہ سے اب کوئی یارا نہیں
رشتے لوگوں کی طرح پاس سے گزر جاتے ہیں