ٹوٹنا تو کوئی بات نہیں سو بار ٹوٹے ہیں
بکھر بکھر کر سمٹے ہیں سمٹ سمٹ کر بکھرے ہیں
مسکراتی آنکھوں سے کبھی تم پوچھنا کہ
کتنے اندیکھے سمندر دل کے اندر گرتے ہیں
پتھروں کی رہگزر پہ چلنے والے قدموں سے
منزلیں اس راہ کی سفر کی داستاں پوچھتے ہیں
گزرا ہوا زمانہ پھر لوٹ آیا نہیں کرتا
پھر کیوں وہ بھولی بسری ہوئی باتیں یاد کرتے ہیں
بارش ہوئی تو ساتھ ہم بھی رو لیں گے
بادل بھی برس جانے کو بہانے چاہتے ہیں
اتنی مہارت سے کرتے ہیں وہ قتل سرراہ ہجوم
نہ دامن پہ کوئی داغ نہ ہاتھوں پہچانے جاتے ہیں