یہ کیسے لوگ ہیں جو محبت کو آزمانے نکلے
بنا کے میرا گھروندہ اب اسکو ڈھانے نکلے
میں جانتا ھوں وہ ملنے کو کبھی نہ آئے گا
جو وعدے اس نے کیے تھے وہ بہانے نکلے
میں اپنی خواہشوں کے سمندر میں ڈوب کر ابھرا
یوں جسم کے سارے زخموں کو پھر چھپانے نکلے
فضاء میں آج بھی رہتیں ہیں سرگوشیاں بن کر
وہ باتیں جن کو بھلانے میں کئی زمانے نکلے
وہ میرے خوں سے جلا کر چراغ ھاتھوں سے
یوں ٹوٹی قبروں کو پھر سے وہ سجانے نکلے