خفا مت ہو کہ دل کی خواہشوں کی بات کرتا ہوں
میری جاں کب میں بے بس آنسوؤں کی بات کرتا ہوں
نہیں مجھکو گوارا غنچہ و گل کی بیابانی
میں بارودی فضا میں گھونسلوں کی بات کرتا ہوں
جوار شہر میں بدصورتی نے ڈیرے ڈالے ہیں
مگر میں ہوں کہ ٹوٹے آئینوں کی بات کرتا ہوں
مجھے کیونکر مٹائے گا تھپیڑا وقت آخر کا
کہ سانسیں بیچ کر میں دھڑکنوں کی بات کرتا ہوں
گھٹا چھائی ہے اس پہ دہشتوں کی آج تو کیا ہے
میں اس دھرتی کے گم گشتہ دنوں کی بات کرتا ہوں
میری خود ساختہ دنیا کو سمجھے گا زمانہ کیا
میں خود حیران ہوں کن موسموں کی بات کرتا ہوں