ٹوٹے پتوں کی جاگیر سنبھال رکھی ہے
دل نے کب سے اک تصویر سنبھال رکھی ہے
کون کہتا ہے محبت کو بے ثمر خواب
عداوت لہجوں کی، ہر زنجیر سنبھال رکھی ہے
کبھی زیب تن تھا آنکھوں پہ جو خیال
ٹوٹی پلکوں نے ہر تعبیر سنبھال رکھی ہے
وہ جو ٹھہر نہ پایا تیرا منظر ہی کیا
ہاتھوں نے پھر بھی اک لکیر سنبھال رکھی ہے