جب بھی دل کی باتیں اس سے کہنے لگتا ہوں
پانی بن کے آنکھوں سے میں بہنے لگتا ہوں
خار چبھتا ہے جو کبھی تو چیخ نکل جاتی ہے
حد سے بڑھتا ہے جب دکھ تو سہنے لگتا ہوں
تنہائی کے عفریت جو اکثر دل کو ڈراتے ہیں
تیری یادوں کی سنگت میں رہنے لگتا ہوں
تیرے ہجر کی پاگل لہریں بے کل رکھتی ہیں
سمت بے سمت یونہی اکثر بہنے لگتا ہوں
بھولنے کی جب بھی اس کو کوشش کرتا ہوں
ریت گھروندوں کی مانند میں ڈھنے لگتا ہوں
تیرے وصال کے رنگیں موسم جب سے بچھڑے ہیں
خزاں رتوں کے پیلے کپڑے پہنے لگتا ہوں
تنہائی کے خوف سے اکثر ہول سا جاتا ہوں
الٹی سیدھی باتیں سب سے کہنے لگتا ہوں