پتا نہیں کیوں بس جیے جارہے ہیں
جو نہ بھی کرنا ہو وہ کیے جارہے ہیں
بس یہی انداز ہے زندگی کا.
اپنا پتہ نہیں لوگوں کے زخموں کو سیے جارہے ہیں
یوں تو عام لوگوں سے مختلف نہیں
پر اپنے ہی انداز پر فخر کیے جارہے ہیں
خاموش لمحوں میں اصولوں کو بننا
پھر انہی اصولوں پر عمل کیے جا رہے ہیں
سامنے دھندلے منظر ہیں لیکن
ہم خود کو لوگوں کی نظروں سے غائب کیے جا ر ہے
ایک پالتو پرندے کی طرح زندگی کی قید میں ہیں.
لیکن بہانے بہانے سے خود کو آزاد کیے جا رہے ہیں۔