پتھر برسانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
Poet: توقیر اعجاز دیپک By: نازیہ جنید, Karachiپتھر برسانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
مجھے مٹانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
گھائل بدن میں اب بھی میرے لوہو تھوڑا باقی ہے
پوچھ بہانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
سر سے لے کر پاؤں تک درد کا اب احساس نہیں
چوٹ لگانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
مدھم سے کچھ منظر جو آنکھیں اب بھی دیکھتی ہیں
تیر چلانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
گھر کے ایک دریچے کا جلنا کچھ کچھ رہتا ہے
آگ لگانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
دیکھو سالم اب تک ہے کمرے والی اک دیوار
اِسے گرانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
دور کہیں سے ایک صدا اب بھی سنائی دیتی ہے
چھوڑ کے جانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
دیپک برپا ہوا نہیں قہر تمھاری بستی پر
ستم مچانے والا کوئی رہ تو نہیں گیا
More Sad Poetry






