پتہ ساحلوں کا بتاتے بتاتے
میں ڈوبا کسی کو بچاتے بچاتے
دکھاؤ نہ استادیاں اس کو صاحب
کٹی عمر جس کی سکھاتے سکھاتے
وہ اب چھینتے ہیں نوالے ہمارے
جِنھیں اپنے ہاتھوں سے ہم تھے کھلاتے
وہ گم نامیوں میں کہیں کھو گیا ہے
کبھی لوگ جس کے طَبَل تھے بجاتے
میرا نام بھی وہ لبوں پر نہ لائے
جو شام و سحر تھے مرے گیت گاتے
وہ اب ہم سے نا آشنا ہو گئے ہیں
جو پلکوں پہ اپنی ہمیں تھے بٹھاتے
جھڑی ایک لگ جاتی ہے آنسوؤں کی
ترے خط ہمیشہ جلاتے جلاتے
اسے پاؤں پڑ کے منا لیتا میں بھی
اگر دیکھتا مڑ کے وہ جاتے جاتے
جسے روٹھنا ہے وہ اب روٹھ جائے
کہ میں تھک گیا ہوں مناتے مناتے
لگا بیٹھا نِسیان کا روگ دیپک
مسیحا کو اپنے بھلاتے بھلاتے