پختہ ارادوں میں روشن کامیابی رہتی
ڈھل مل یقین میں پوشیدہ خواری رہتی
انبار ڈھیر سارے سامان کے پڑے ہیں
پل کی نہیں خبر کچھ، بے اعتباری رہتی
محتاط شخص اپنی پہچان پائے کیسے
جب فکر عاقبت ہی ان کو ستاتی رہتی
کیسے لٹا چکے فانی دہر کے لئے سب
جمتے مشن پہ پھر نہ یوں بے توجہی رہتی
ابلیس کس طرح سے چوبند و تیز ٹھہرا
افسوس! مات دینے ہمت دلیری رہتی
پیمان سے مکر ناصر جائیں ٹھیک لگتا؟
کچھ غور کر، بری پر وعدہ خلافی رہتی