دیکھو تو آج کیا غضب ڈھا بیٹھے
پرائ آگ سے گھر اپنا جلا بیٹھے
سمندر آنکھوں کا سب سوکھ گیا
درد کو ہم یار بنا بیٹھے
اندھیر اتنا کہ کچھ سجائی نہ دے
دیا آس کا پھر بھی جلا بیٹھے
زخم اتنے کہ بھرتے ہی نہیں
مرہم کئی بار لگا بیٹھے
اندھیر نگری تو نہیں ہے یا رب
تیرے آگے آنچل پھیلا بیٹھے
سنے گا تو فریاد دکھی جی کی
ہم بھی در تیرا کھٹکٹا بیٹھے