پردہ پڑا ہوا تھا خودی نے اٹھا دیا
Poet: شفیق جونپوری By: سلمان علی, Multanپردہ پڑا ہوا تھا خودی نے اٹھا دیا
اپنی ہی معرفت نے تمہارا پتہ دیا
در در کی ٹھوکروں نے شرف کو مٹا دیا
قدرت نے کیوں غریب کو انساں بنا دیا
اپنے وجود کا بھی تو کوئی ثبوت ہو
میں تھا کہاں کہ مجھ کو کسی نے مٹا دیا
اللہ رے جبہہ سائی خاک حریم دوست
بندے کو بندہ سجدے کو سجدا بنا دیا
حس مردہ تھی حیات مسلسل میں زیست کی
تخریب زندگی نے پیام بقا دیا
پھر اس کے گھر میں ہو نہ سکی روشنی کبھی
جس کا چراغ تو نے جلا کر بجھا دیا
کوئی خوشی خوشی نہیں اپنے لیے شفیقؔ
کس کی نگاہ نے سبق غم پڑھا دیا
More Sad Poetry






