پردہ پڑا ہوا تھا خودی نے اٹھا دیا

Poet: شفیق جونپوری By: سلمان علی, Multan

پردہ پڑا ہوا تھا خودی نے اٹھا دیا
اپنی ہی معرفت نے تمہارا پتہ دیا

در در کی ٹھوکروں نے شرف کو مٹا دیا
قدرت نے کیوں غریب کو انساں بنا دیا

اپنے وجود کا بھی تو کوئی ثبوت ہو
میں تھا کہاں کہ مجھ کو کسی نے مٹا دیا

اللہ رے جبہہ سائی خاک حریم دوست
بندے کو بندہ سجدے کو سجدا بنا دیا

حس مردہ تھی حیات مسلسل میں زیست کی
تخریب زندگی نے پیام بقا دیا

پھر اس کے گھر میں ہو نہ سکی روشنی کبھی
جس کا چراغ تو نے جلا کر بجھا دیا

کوئی خوشی خوشی نہیں اپنے لیے شفیقؔ
کس کی نگاہ نے سبق غم پڑھا دیا

Rate it:
Views: 668
26 May, 2022