دیس میں رہنے والوں کسی پردیسی سے پوچھوں
کہ دیس کیا ہوتا ہے
اپنوں سے خفا ہونے والوں کسی پردیسی سے پوچھو
کہ اپنوں کا ساتھ کیسا ہوتا ہے
ہر خوشی ہر غم میں بھی اپنوں سے دور رہنا کیسا ہوتا ہیں
پاس جانا چاہوں بھی تو نہ جا سکوں اس دوری کا احساس تبھی ہوتا ہے
اک پردیسی نے کہا میری ماں ہر پل میرے ساتھ رہتی تھی
کیونکہ مجھے اندھرے میں ڈر لگتا تھا
پر آج یہ کیسا منظر ہے آندھی ہیں طوفان ہیں اندھیرا ہے
اور میں اکیلا ہوں
اچانک سے ماں کا فون آگیا ماں نی پوچھا بیٹا کیسے ہو
میں چپ رہا کچھ نہ کہا
کہا تو بس اتنا کہا کہ ماں میں پردیسی ہوں میں پردیسی ہوں
میں ماں سے کیسے کہتا کہ آج سخت اندھیرا ہے
مجھے تنہائی نے آگھیرا ہے
کوئی نہیں ہے اپنا میرے پاس سوائے ان پلوں کے
جو اپنوں کے ساتھ گزارے ہیں
پردیس کا عالم تو وہی جانے جس نے تنہائی میں
اپنوں کی جدائی میں اپنی زندگی کے کچھ پل گزارے ہیں