پردیسیوں کے نام
Poet: Muhammad Yasir Ali By: Muhammad Yasir Ali, Rawalpindi خوشی خوشی پردیس آنے والے
اگر تو نے دیس میں
بارش کے بعد
دھرتی ماں کی آغوش سے اٹھنے والی
سندی سندی، دھیمی دھیمی
خوشبو کو محسوس کیا ہو گا
تو اب پردیس میں جب بھی
کوئی آوارہ بادل برسا ہوگا
تو تنہائی میں تو بھی رودیا ہوگا
اور خیالوں ہی خیالوں میں
خوشبو کو محسوس کیا ہوگا
پردیس سے دیس میں پہنچا ہوگا
اپنوں کو سوچا ہوگا
اور اداس ہوا ہوگا
دیس کو لوٹ کے آنے کو
تیرا جی چاہا ہوگا
مگر ہر بار
والدین کی بیماری کے اخراجات نے
بچو ں کی تعلیم اور ان کی خواہشات نے
جوانی کی دہلیز پار کرتی
جہیز کے انتظار میں بیٹھی
بہن کی صورت نے
یعنی کے فکرِ معاش نے
دیس کی جانب اٹھتے تیرے قدموں کو روکا ہوگا
نہ صرف تیرے بلکہ
تیری بیوی کے ارمانوں کو کچلا ہوگا
کچھ دیر تونے کچھ سوچا ہو گا
تصور میں تونے
تجھ سے امید بندھی نظروں کو دیکھا ہوگا
اور پھر سے تلاشِ معاش میں
اپنے کام کی جانب نکل پڑا ہوگا
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






