آج اپنی ہی پرچھائی کو
رونے سے چپ کراتے رہے
ُاس کے پاس بیٹھ کر
ُاسے گلے سے لگاتے ریے
ُاسے پیار سے بہت سمجھتے رہے
ُاس کے آنسوں کو اپنے
ہاتھوں سے مٹاتے رہے
ُاس کی داستان سن کر ہم
خود کو بھی جلاتے رہے
آج اندھرے میں ملی تو کتنا
دکھ تھا ُاس کے لہجے میں لکی
جسے ہم دن کی ُاجالوں میں
دیکھ کر مسکراتے رہے
وہ مسلسل مجھ سے پوچھتی رہی
کہ آخر کیوں تنہا کر دیا ہیں مجھے لکی
مگر ہم تو ُاس کے ہر سوال کو
باتوں میں ُاجھاتے رہے
وہ پم سے اپنا قصور طلب
کر رہی تھی اور ہم خود کو
بار بار بےگناہ بتاتے رہے
ہنس ہنس کر ہم اپنی ہی ہنسی میں
اپنا درد ُاس سے چھپاتے رہے
جب ُاس نے میرا حال دیکھا تو
اچانک ! خاموش ہو گئی
شاید ! دوران گفتگو ہم
ُاس سے نظریں چراتے رہے
جب وہ تھک گئی تو چیخ ُاٹھی
ُاس اندھری رات میں اور بولی
کہ آخر آج تم شرمندہ کیوں ہو لکی
جب کے تم انسان محبت کر کے
اپنی پرچھائی کو بار بار آزماتے رہے
اگر نہیں ہیں تمہارے پاس
میرے کسی سوال کا جواب تو
کیوں نہیں مجھے چھوڑ دیتے
کیوں زندہ رہ کر مجھے موت
کا بار بار روپ دیکھتے رہے