پسِ پردہ نہیں ، دیکھا تو کیا دیکھا
جو دِکھایا وہی ، دیکھا تو کیا دیکھا
بات بڑھ چُکی ہوتی ہے بات کُھلنے تک
اُٹھے پردے تبھی ، دیکھا تو کیا دیکھا
سُلطان و سَالار کے دَبدَبے سے مُنصف نے
چُراٸیں کبھی نظریں کبھی ، دیکھا تو کیا دیکھا
جب أنکھیں بےگناہی کی فریاد کرتی ہَوں
جواب پھر ، منطقی دیکھا تو کیا دیکھا
”اخلاق“ چراغ کے بُجھتے ہی سب کچھ چھوٹ جاتا ہے
چَمکتی پُتلی سے جو چاہا ، سبھی دیکھا تو کیا دیکھا