پلانے والے بتا مجھے تو، کیا مے جہنم میں ڈال دے گی؟
جو پی کے اس کا جمال لکھوں، کیا دنیا دادِ کمال دے گی؟
ہے خشک دل کی زمینِ الفت، ابر محبت کے چھا گئے ہیں
برس کے اب ہے غبار روح تک، کیا جان میری نکال دے گی؟
ستم کے مارے، ظلم کے عادی، زمانے والے ہیں ریزہ ریزہ
طلوعِ صبحِ درخشاں سب کا، کیا غم مسرت میں ڈھال دے گی؟
خمارِ الفت، وصل کی چاہت، امیدِ دل سے سوا نہیں ہے
ہجر سے مجھ کو نکال کر وہ، کیا شامِ قرب و وصال دے گی؟
عدم کی جانب بڑھا کے خود کو، بریدہ جذبے کھنگالتے ہو
ستم ہے احسن، سخنوری یہ، یہ صرف حرفِ ملال دے گی