پلکوں کے کچھ دیپ جلا نے پڑتے ھیں
جب جب دل ے زخم چھپا نے پڑتے ھیں
تم بے شک ناراض رھو پر غور کرو
بچھڑیں تو ملنے کو زمانے لگتے ھیں
پھر جا کر اک چھو ٹا سا اک گھر بنتا ھے
سر پر پتھر ڈھو کر لا نے پڑتے ھیں
کیسے ھم انکار کریں گے پینے سے
رستوں گر کچھ میخانے پڑتے ھیں
نفرت کی یھ دھوپ تو کم ھو سکتی ھے
پیار کے لیکن پیڑلگانے پڑتے ھیں
پیار کا حق ملتا ھے لیکن دردوں کے
کھاتے اپنے نام کرانے پڑتے ھیں
اس کے شھر میں زیدی لفظ محبت پر
کتنے ھی آلام اٹھانے پڑتے ھیں