خوابوں کی بکھری پرچھائیاں ستاتیں ہیں
نگاہوں میں رہ گئی ادھوری خوشیاں رلاتیں ہیں
میری چشم نم سے لہو کے آنسو بہتے ہیں
پلکیں خود کو پتھر سا بتاتیں ہیں
میں بھٹک رہی ہوں اجڑے گلستاں میں
خاموشیاں کانوں میں گنگناتیں ہیں
چراغ جلے تھے میری بھی محبت کے لوگو!
اب تو ہلکی پھلکی ہوائیں بھی ڈرا جاتیں ہیں
محبوب اور محبت میں فرق ڈھونڈتی ہوں اور
تیری وفائیں مجھے نئے اصول سکھاتیں ہیں