آسان تھا شاید جو
تم نے چھوڑ دیا
بناء کچھ کہے ہی
اپنا ہر تعلق مجھ سے توڑ دیا
میرے سامنے رہ کر بھی
مجھ سے اپنا منہ موڑ دیا
میں نے کچھ نا کہا پر
اندر سے تم نے مجھے توڑ دیا
محبتوں کے سمندر میں
تو ابھی ہم نے ڈوبنا تھا
پر تم نے اچانک سے
دریاؤں کا ُرخ موڑ دیا
وہ پنچھی جو قید تھا
تیرے دل کے پنجرے میں
تم نے ُاس کی
راضامندی کے بغیر ہی
پنجرے کا منہ کھول دیا