پنپ نہ سکے گُل یوں ، گلستاں سے کاٹیٸے
دھڑکتے ہوۓ دل کو رگِ ، جاں سے کاٹیٸے
پھر کہیں شکار اُن کا سَہل ہو گا
پنچھی کو پہلے اُن کے ، أشیاں سے کاٹیٸے
قافلے کو لُوٹیٸے نہ منزل کو چھینیٸے
اک اک مسافر کو ، کارواں سے کاٹیٸے
لے ڈوبنے کو اسے پھر بدگمانیاں بہت
خوش گماں کو اس کے ، گماں سے کاٹیٸے
جن تذکروں سے جذبوں کو جلا ہے
صاحبِ یقیں کو اس ، داستاں سے کاٹیٸے
گمراہی کی فصل بونے کو ہے لازم
نسلِ نَو کو قومی ، زُباں سے کاٹیٸے
لبریز اِن کاوِشوں سے ہے کردارِ میڈیا
عورت کو حجاب و حیا و ، مکاں سے کاٹیٸے
تقاضہِ لحمِ أدم کیا تو گَداگَر بولا
موسیٰ ! یہاں سے کاٹیٸے ، یہاں سے کاٹیٸے
اخلاق دو کشتیوں کے سوار تو کبھی منزل نہیں پاتے
چاہتے ہو فلاح تو خود کو اِس ، جہاں سے کاٹیٸے