میرے خوابوُں کا پنچھی
منزل منزل
بھٹکا کیا ہے کب سے
کبھی اس نگر
کبھی اُس نگر
کبھی اس ڈگر
کبھی اُس ڈگر
ملا نہ آشیانہ
کہ پڑا ہے ایسا وقت کا تازیانہ
ہر سمت بپا ہے
بس کرب و بلا کا منظر
اور اک طرف فرات ہے
ملے آب حیات مُجھ کو
یہ نصیبوُں کی بات ہے
آشیاں سے ٹپکا
اک پرندہ ہوں میں
ہے دم آخریں مگر
ابھی زندہ ہوں میں
یہ چنگاری ابھی
ُشعلہ بن بھی سکتی ہے
اس کرب و بلا کی آگ کو
ٹھنڈا کر بھی سکتی ہے
خواب و خیال کی دُنیا پر
جب قید حیات آتی ہے
انقلاب کی شمع پھر
دل کے تاروُں کو چھیڑ جاتی ہے
میں وُہ پنچھی ہوُں کہ خوُد
قبضہ قید فراق میں آیا
پر کاٹ کے اپنے خُود ہی
جبر صیاد کا شکوہ لایا