پوچھ مجھ سے میری مسافتوں کی قیمت
عمر چکاتے گزری ہے چاہتوں کی قیمت
مدتوں عادی بنا کے مجھ کو آج
چلا ہے لگا کر رفاقتوں کی قیمت
لمحہ لمحہ وفا کا میری امتحاں رہ
رہے جان و دل مانگتے صداقتوں کی قیمت
یادیں تنہائیاں اور عمر ء عزیز میری،
کتنی کٹھن رہی امانتوں کی قیمت.
رنجشیں بھلا کر لوٹ آئیں تو اچھا ہے
رکتھتے کہاں ہیں خود میں فراقتوں کی قیمت
ہو جاؤ گے مفلس چکا پاؤ گے کہاں،
انمول ہے بہت میری چاہتوں کی قیمت.
جان و دل بیچیں یا مر جائیں عنبر،
بتا کیا ہے تیری قرابتوں کی قیمت.