پھر اڑ رہے ہیں یاد کے بادل ہوا کے ساتھ
لہرائیں تیرے پیار میں زلفیں گھٹا کے ساتھ
اس ہجر کے عزاب کا کرنا ملال کیا
اس زندگی کا ساتھ ہے ہر اک بلا کے ساتھ
شکوہ بھی میرا باعثِ رسوائی ہو گیا
جینا بھی جرم بن گیا دل کی خطا کے ساتھ
یہ حوصلے بھی ہار کی راہوں میں آگئے
صدیوں سے چل رہی تھی میں دشتِ بلا کے ساتھ
خوف خزاں ہے چار سو کنجِ بہار میں
ہرنقش مٹ رہا ہے وفا کا جفا کے ساتھ
کہتا ہے کون اس کو کبھی بھول جاؤں گی
میری رضا ہے آج بھی اس کی رضا کے ساتھ
لوگوں نے وشمہ پھر سے ہے چشمہ بدل لیا
دنیا میں ہو رہا ہے تماشا وفا کے ساتھ