پھر تمہارا نام ذہن کے دریچوں میں ابھرا پھر آنکھوں میں نمی آئی
پھر تمہاری یاد دل کے آنگن میں اَتر آئی پھر آنکھوں میں نمی آئی
میں تم سے اپنے دل کی سبھی باتیں ہر روز کہا کرتی رہتی تھی
بیتے لمحوں کی وہ شبیہ خیال میں در آئی پھر آنکھوں میں نمی آئی
تمہارے اور میرے درمیان جو قلبی رشتہ قائم تھا بہت مضبوط تھا لیکن
وہ میں نے توڑ دیا اپنے دل سے کرکے بےوفائی پھر آنکھوں میں نمی آئی
یہ سب قسمت کا قصور ہے یا کہ میری تقصیر تھی میں قائم ہی نہ رہ پائی
وجود کی طرح روحوں کے درمیاں ہوئی جدائی پھر آنکھوں میں نمی آئی
مجھے یہ علم ہے عظمٰی یہ سب میری ہی خطا ہے یہ سب میرا قصور ہے
کہ میں نے کر کے وفا ، خود ہی وفا نہیں نبھائی پھر آنکھوں میں نمی آئی