کوئ انسان نہ انسان کا سایہ کوئ
مفلسی دیکھ تر ے گھر نہیں آیا کوئ
قید تنہائ میں ساتھی ہے تو سورج کی کرن
اک پرندہ بھی دریچہ میں نہ آیا کوئ
آنکھیں نم نم سی ہیں ۔ کم کم سی ہنسی ہونٹوں پر
لے گیا کیا کسی اپنے کو پر ا یا کوئ
راہ الفت میں ملے کتنے حسیں آپ کے بعد
دل دیو ا نہ کو لیکن نہیں بھا یا کوئ
اف شب چاندنی اف ۔ یہ تری عریاں بد نی
پھر نظر آئے ہے شبنم میں نہایا کوئ
نور یزداں میں کھلا وہ گل پر خار زمیں
پھر گلاب ایسا نہ قدرت نے کھلایا کو ئ
کر گیا خشک کوئ اشکوں کے مو سم ایسے
ابر پر آب حسن پھر نہیں چھا یا کوئ