پھول رکھتے ہیں کتابوں میں وفا کے نام پر
بے سبب کب ہاتھ پھیلایا کسی کے سامنے
بھیک اب کوئی نہیں دتیا خدا کے نام پر
اُس نے کرنوں کے بہانے دی تمازت دھوپ کی
دے رہا ہے وہ سزا ، دیکھو جزا کے نام پر
بد نظر سے تو بچے لگ جائے تجھ کو میری عمر
ماں نے دی یہ بدعا مجھ کو دُعا کے نام پر
کھڑکیاں کھولیں نہیں دیوار گھر کی توڑ دی
اتنا ہی وہ کر سکا تازہ ہوا کے نام پر
کیا کرے گا وہ جو دوراہے پہ تنہا رہ گیا
اپنی تو کٹ ہی رہی ہے بے وفا کے نام پر