پھول مانگے ہیں نہ کانٹوں سے شکایت کی ہے
میں نے ہر حال میں اوروں سے محبت کی ہے
میں نے بہتے ہوۓ دریا کو کنارا سمجھا
بے سہاروں کو بھی اپنا سہارا سمجھا
بات سمجھی نہ زمانے کا اشارا سمجھا
اپنے دشمن کو بھی جان سے پیارا سمجھا
جب بھی دنیا کی روایت سے بغاوت کی
میں نے ہر حال میں اوروں سے محبت کی ہے
اپنے احساس کی دولت کو گنوایا بھی نہیں
ایک دن جس سے ملا اس کو بھلایا بھی نہیں
کوئ اپنا بھی نہیں اور پرایا بھی نہیں
دھوپ قسمت میں نہیں بخت میں سایہ بھی نہیں
ہر گھڑی مجھ پہ نظر ہے جو قیامت کی ہے
میں نے ہر حال میں اوروں سے محبت کی ہے
خواب دیکھے ہیں نہ خوابوں کا بسایا ہے نگر
ایک بچے کی طرح روز ہی کرتا ہوں سفر
میری منزل ہے نہ کوئ میرا راستہ ہے ادھر
میں بھٹکتا ہوں ہر ایک شہر میں اب شام وسحر
یہ سزا مجھ کو ملی میری شرافت کی ہے
میں نے ہر حال میں اوروں سے محبت کی ہے
مال و زر کے لئے ہر چیز لٹانے کا نہیں
میں طلبگار محبت کا زمانے کا نہیں
زخم کھایا ہے جو دل پر وہ دکھانے کا نہیں
میں وہ پنچھی ہوں کہ اپنے ہی ٹھکانے نہیں
میں نے کردار کی عظمت کی حفاظت کی ہے
میں نے ہر حال میں اوروں سے محبت کی ہے