جنوں میں عشق کے راستہ اپنا بھول گئے
دیوانگی منزل کا پتہ اپنا بھول گئے
پوچھا جو منزل کا پتہ دل سے سفر میں
کہا چلتے چلتے اتنا تھکے کہ دھڑکنا بھول گئے
تیری تلاش میں جو آئے پتھر صنم راہ میں
میری جان بوجتے رہے خدا اپنا بھول گئے
تاریکی نصیب کی بعد مرنے کے بھی ساتھ رہی
قبر پہ اپنے پرائے شمعیں جلانا بھول گئے
جنت کی آغوش میں سکوں نے بے سکوں کردیا
بس فرشتے بستر پہ کانٹے بچھانا بھول گئے
ہم وہی ہیں دوستوں کبھی طولتے تھے پھولوں میں
پھول کی قبر ترستی ہے اج اک پھول کو آپ ڈالنا بھول گئے