پھولوں کی تبلیغ کی اور خوشبوءِ راس نہ آئی
کیا رنگ ملا زندگی! کوئی ترغیب پاس نہ آئی
ہر طرح اظہار دلچسپی جیون کی آرزوُمند ہے
ہمارے لب پھڑکے اُن کے ہونٹون پر پیاس نہ آئی
سنجیدگی، فرض، سخن دوستی اور کیا مانگیں
احساس سے اشک گرے اور خلوت خاص نہ آئی
قلیل سبھی دُکھ باٹتے ہیں مگر حجابوں میں
کیونکہ درد کی کسی کو بھی پیمائش نہ آئی
ایک وقت کی جھپکی گونچے اُکھاڑ دیتی ہے
ہمارا تو چمن اُجڑ گیا مگر تراش نہ آئی
اپنی الفت کا قصہ وہ لوگ کیا سمجھیں گے
جنہیں کبھی سنتوشؔ عشق کی خراش نہ آئی