پہلا سا وہ زور نہیں ہے میرے دکھ کی صداؤں میں
شاید پانی نہیں رہا ہے اب پیاسے دریاؤں
جس بادل کی آس میں جوڑے کھول لئے ہیں سہاگن نے
وہ پربت سے سرٹکرا کر برس چکا صحراؤں میں
جانے کب تڑپے اور چمکے سونی رات کو پھر ڈس جائے
مجھ کو ایک رو پہلی ناگن بیٹھی ملی ہے گھٹاؤں میں
پتہ تو آخر پتہ تھا گنجان گھنے درختوں نے
زمین کو تنہا چھوڑ دیا اتنی تیز ہواؤں میں
دن بھر دُھوپ کی طرح سے ہم چھائے رہتے ہیں دُنیا پر
رات ہوئی تو سمٹ کے آ جاتے ہیں دل کی گپھاؤں میں
کھڑے ہوئے جو ساحل پر تو دم میں پلکیں گئیں
شاید آنسو چھپے ہوئے ہوں صبح کی نرم ہواؤں میں