اپنی زباں سے بات کوئی خونچکاں کہو
پہلو میں ہے رقیب اسے مہرباں کہو
کیوں زندگی کو کہتے نہیں ہو “ آزردگی “
اک بحر درد و غم ہے مسلسل رواں کہو
کہتا ہوں اس فریب وفا کے لیے سخن
کیا میری شاعری میں نہیں وہ عیاں کہو ؟
شاعر نہ مانیے مجھے ہو گا نہ کچھ گلہ
پر دل کی بات کیسے کروں میں بیاں کہو
زاہد تمام عمر گراں بار ہی رہی
کوئی عذاب ہے یا مرا امتحاں کہو