پہلے خود سے جدا ہوا ہوں میں
پھر کہیں تجھ سے آ ملا ہوں میں
اب مجھے پوچھنے کو مت آنا
اپنے اندر کہیں گیا ہوں میں
ناگہاں خود سے ڈرتا رہتا ہوں
گویا اپنی کوئی بلا ہوں میں
خواب تو جانے کب اوجھل ہیں
صرف سونے کو سو رہا ہوں میں
جانیے کون ہو وہ کیسا ہو
جس سے اب تک نہیں ملا ہوں میں
چھین مت وصل کی ولایت کو
تیرے در سے نہیں پِھرا ہوں میں
کون ہے یہ جو آ گیا مجھ میں
اور کس سے گزر چکا ہوں میں
کھیل ہے بے نیاز ہو جانا؟
گویا اپنے تئیں خدا ہوں میں
گَھٹ رہا ہوں فراق میں ہر پل
جانیے کس قدر بچا ہوں میں
ہیں کئی صورتیں مرے اندر
جانے کس سے بہل رہا ہوں میں
اتنی فرصت؟ جنیدؔ عطاری
شاید اس کو بھلا چکا ہوں میں