دھن دولت تو ہاتھ کی میل تھی لیکن
وفا بھی دھول ہے یہ جانتے نہ تھے
زخموں سے جسم چھلنی ہے تو حیرت کیسی
دوستی کے لبادے میں دشمنوں کو پہچانے نہ تھے
پہلے پہل پیار کا دھوکہ یاد ہے شیری
محبت میں کسی بھی بات کو آزماتے نہ تھے
چپ چاپ جل جاتے تھے شمع محفل کی مانند
دکھ قیامت کا تھا مگر اشک آنکھوں میں آتے نہ تھے
ریزہ ریزہ بکھر رہے تھے خوشبو کی مانند
خود سر انا کی خاطر پھول میں آتے نہ تھے
وفا کے بدلے وفا کی شرط کچھ غلط تو نہ تھی
شکوہ تھا بجا، لب ہرگز ہلاتے نہ تھے
خاک ہوچکا شہر وفا کا ہر مکاں
امید چراغ کو پھر بھی بھجاتے نہ تھے