پہن کر جمہوری قبا یہ کیسا جمہوری نظام دیتے رہے
ستم گر یہاں درد سرِ عام دیتے رہے
تم تو رہے سطوت میں اے اعضائے مجالِس
میں کیوں مانوں؟ کہاں چمن کو اچھی پہچان دیتے رہے
ناموسِ دينِ مصطفىٰ کے یہ کیسے ہیں محافظ
مفلِس کی جھونپڑی میں لگی آگ کو پروان دیتے رہے
بازارِ عالم تک مشہور ہیں ان کے بیانات صرف بیانات
دہایوں سے یہ اہلِ باغ کو نقصان دیتے رہے
گلِ چمن تو بیچتے رہے سڑکوں پہ پانی
تم کس کو روٹی کپڑا اور مکان دیتے رہے
لٹتی رہیں کلیاں سرِ بازار یہاں
تاسف ہے اہلِ تجاہل کیا شان دیتے رہے
ایسی تلخیوں میں آرزوئے خواب کیا کرے ارسلؔان
رُسوائی یہاں روزوشب بے درد انسان دیتے رہے