پی لیے سب اشک جب بہنے لگے
ضبط غم کے بحر میں رہنے لگے
بے بسی اس کے سوا ہے کیا بھلا
خامشی سے ہر ستم سہنے لگے
ہوش میں کچھ بھی کہا جاتا نہیں
بے خودی میں مدعا کہنے لگے
آشنا دنیا سے کچھ ایسے ہوئے
خود سے بھی ہم اجنبی رہنے لگے
دیجیے ہم ہیں سزا کے منتظر
جھوٹ کی دنیا میں سچ کہنے لگے