دریا گزر گئے ہیں، سمندر نہیں ملا
پیاسی رہی میں، مے کا وہ ساغر نہیں ملا
اُس جیسا دوسرا نہ سمایا نگاہ میں
کتنے حسیں ملے، وہی پیکر نہیں ملا
کچھ تیر میرے سینے میں پیوست ہی رہے
تیروں کے درمیاں میں وہ خنجر نہیں ملا
آنسو بیان کرنے سے قاصر رہے جنہیں
وہ زخم دینے والا ستمگر نہیں ملا
اک چوٹ دل پہ لگتی رہی ہے تمام شب
دل کی زمیں پہ آج وہ دلبر نہیں ملا
وہ ضبط تھا کہ آہ نہ نکلی زبان سے
وہ سامنے تھا، پھر بھی وہ آکر نہیں ملا
وشمہ جی اُس کے پیار میں لذّت عجیب تھی
لیکن اُسی سے میرا مقدّر نہیں ملا