اشکوں سے اپنی آنکھیں ہی پرنم ہیں دوستو
"اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو"
ایسی ہوئی خطا کہ معافی نہ مل سکی
غیروں کو چھوڑ اپنے بھی برہم ہیں دوستو
ہر سمت ہم کو درد ہی سایہ فگن ملا
مایوسیوں کے وار ہی پیہم ہیں دوستو
مجنوںؔ تھا قیسؔ نام کا پھر اس کے بعد ہم
تھامے ہوئے جو عشق کا پرچم ہیں دوستو
کتنا ہے جان کاہ غمِ روز گار بھی
مدغم اسی میں اور سبھی غم ہیں دوستو
دیکھو متاعِ درد کے کتنے حریص ہم
ڈھیروں ملے ہیں رنج مگر کم ہیں دوستو
ہم بے خبر مجاز کے پیچھے پڑے رہے
اس بے طرح سے بھاگے کہ بے دم ہیں دوستو
اپنا علاج یار کی صورت میں ہے نہاں
ہیں زخم بھی وہی، وہی مرہم ہیں دوستو
اک بار آ کے دیکھ لیں جیون کا کیا پتہ
ان سے کہو چراغ یہ مدھم ہیں، دوستو
ہر گھر میں آئے دن کے جو ماتم ہیں، ذمہ دار
حیوان تو نہیں ہیں، ارے ہم ہیں دوستو
حسرتؔ کے حق میں حق نے جو تحریر کر دیا
اس کی رضا کے آگے سرِ خم ہیں دوستو