چار دن کی زندگی ہے، اس میں روٹھنا منانا کیا
دور ہوں جو پہلے ہی، انکے گلے سے لگنا لگانا کیا
قربتوں کے اس حسیں دور میں الزام جو لگے تو
پھر ایسے میں اک دوسرے کو دیکھنا دکھانا کیا
یہ جو لکھ رہے ہو نام میرا تم ساحل سمندر پہ
لہروں کا تو کام ہے مٹانا، اس میں ڈرنا ڈرانا کیا
جب لکھا ہو قسمت میں عمر بھر ماتم ہی ماتم
تو پھر رتوں کا بدلنا، بہاروں کا ہنسنا ہنسانا کیا
باغ ہی جب اجڑ گیا ہو ہرا بھرا اک باغباں کا
اس چمن میں حسیں پھول کا کھلنا کھلانا کیا
بہاروں میں بھی نہ آئے جن درختوں پہ بہار
تو پھر ایسے اشجار کے نیچے بیٹھنا بٹھانا کیا
دب گیا ہے سر جو تیرے احساں کے بوجھ تلے
تو پھر اس کا عزت سے اٹھنا کیا، گرنا گرانا کیا
کانوں کے کچے ہوں جس شہر کے سبھی باسی
تو پھر افواہوں کا اس بستی میں اڑنا اڑانا کیا
گر خدا ہی نہ چاہے کرنا ممکن وصل ہمارا
تو پھر رشتوں کا تیرے میرے جڑنا جڑانا کیا
دلوں میں بسی ہوں اگر نفرتیں اور کدوتیں
تو پھر ایسے میں ہاتھوں کا ہمارے ملنا ملانا کیا
عمراؔن کو مانتے ہو قاتل تم اپنی ہر خوشی کا
تو پھر میت پہ اسکی آنسوئوں کا بہنا بہانا کیا