جلتی ہوئی ہوا میں جنگل ہے آجکل
چراغوں کی روشنی بھی بوجھل ہے آجکل
بے کیف سی حیات گزری ہے تلخیوں میں
ہر اک خوشی میں غم بھی شامل ہے آجکل
صدمے سے ہم تڑپتے ہوئے تنہا ہی رہ گئے
یاروں کی صحبتیں بھی مسلسل ہیں آجکل
آنکھوں کی روشنی بھی آنسوں میں بہہ گئی
سارا وجود درد سے بے کل ہے آجکل
اپنے غرور میں وہ مداوا بھی کیوں کرے
وہ ہوش میں رہیں پر دل پاگل ہے آجکل
اب کیوں سکوں ملے اس افسردہ رات میں
تاروں کے اس غبار میں چاند اوجھل ہے آجکل