چاند کی چاندنی بھی میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی
تھے شکوے اسے وہ بھی ساتھ کرتی رہی
کبھی بادلی سے شکوہ اور کبھی شکایت سحر کی آمد سے
رات بھر بچاری ٹھنڈی آئیں بھرتی رہی
میں بھی جی کھول کر اس کا کلا سنتا رہا
کیا بتاؤں اس چاندنی سے ہیں گلے کسی اور کو بھی
کوئی دیا رات بھر دل ہی دل میں جلتا رہا
آگے بڑھا تو بلبل کو دیکھ کے دھنگ رہے گیا
وہ بھی شکوے پھولوں سے کرتی رہی
کون ہے خوش کس سے یارو یہ خبر مجھ کو نہیں
جو کلی کھلی نہیں وہ بھی اندر ہی اندر سلگتی رہی