چاک در چاک کیا اپنا گریباں یارو
کر سکا پھر بھی نہیں دنیا کو شاداں یارو
چاہے وہ خونِ جِگر ہی جلا کر کیوں نہ ہو
بزمِ جاناں کو رکھا پھر بھی فروزاں یارو
شور و غُل سے تھا رمیدہ دلِ خستہ پہلے
اب تو مجھ سے بھی وہ لگتا ہے گریزاں یارو
چوس لیتی ہے بے دردی سے غریبوں کا لہو
زندگی ہے بڑی مشکل نہیں آساں یارو
متٌقی لوگ ترقی بھی کریں گے کیسے
آگے بڑھنے کے لئیے جب ہوں بے ایماں یارو